About

 

شاعرہ سمیرا سلیم کاجؔل کا یومِ پیدائش
27 اپریل
نام سمیرا سلیم والد کا نام سلیم برنباس، کاجؔل تخلص، 27 اپریل کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ کم عمری سے ہی شعر کہنے کا شغف رکھتی ہیں۔ آباؤ اجداد کا تعلق نارووال سے ہے۔ ابتدائی تعلیم راولپنڈی میں حاصل کی۔ مسیحی فیملی سے تعلق ہے۔ مادری زبان پنجابی ہے۔ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کر رہی ہیں۔ علمِ عروض کو جنون کی حد تک اہمیت دیتی ہیں۔ اس موضوع پر لکھی گئی مختلف کتب آپ کے زیر ِمطالعہ رہتی ہیں۔ بقول آپ کے ریختہ ویب سائیٹ پر فن ِعروض کے حوالے سے موجود ویڈیوز سے آپ نے ابتدا میں استفادہ کیا۔ سرحد یونیورسٹی پشاور سے سائیکولوجی میں ماسٹرز کر چکی ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس سے اُردو زبان و ادب میں بھی ماسٹرز کر چکی ہیں۔ سال ٢٠١٩ میں مصر، اردن کے مقدّس مقامات کی زیارت کرنے کی نیّت سے اپنے والد کے ہمراہ سفر کیا۔ واپسی پر سفر نامہ لکھا جسے بہت جلد کتاب کی صورت میں پیش کریں گی۔ بچّوں کے لیے بھی متفرق دلچسپ موضوعات پر نظمیں تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ آپ ایک سرکاری ادارہ میں بھی فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ آپ کا پہلا شعری مجموعہ "اعتبار کے سب موسم جا چکے" اور دوسرا شعری مجموعہ "کچھ کمی سی لگتی ہے" کے نام سے شائع ہوا۔ غزلوں اور نثری نظموں پر مشتمل تیسرا شعری مجموعہ اور بچّوں کی نظموں کا مجموعہ یہ دونوں کتابیں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ سمیرا سلیم کاجؔل حالاتِ حاضرہ کے نشیب وفراز پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حادثات و واقعات کو اشعار کے سانچے میں ڈھالنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ آپ ایک سچّے تخلیق کار کی طرح سب کے دکھوں اور محرومیوں کو محسوس کر کے تخیّل کے خامہ سے احساس کے قرطاس پر رقم کرتی چلی جاتی ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ تخلیق کار صرف اپنا رونا ہی نہیں روتا بلکہ اوروں کے بھی آنسو صاف کرتا ہے اور ان کے ارد گرد سر اٹھاتے غموں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ آپ کے مطابق شعر وہی زندہ رہتا ہے جس کا مفہوم معاشرے کا ان پڑھ بھی سمجھ سکے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے آپ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی مختلف شاخوں پر وہی لوگ کامیاب ہیں جو کسی گروہ بندی کا حصّہ نہیں بلکہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ جو اپنے کام سے مخلص ہو گا۔ خدا بھی اس کی مدد کرے گا۔
منتخب کلام:
بحرِِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
خالقِ کُل ہے تِری ذات کرم کر مولا
ہے صدا بس یہی دِن رات کرم کر مولا
تیرے دربار سے جاتا نہیں کوئی خالی
ٹھیک کر دے مِرے حالات کرم کر مولا
دَستِ قُدرت مِیں تِرے رِزق ہے سب کا رازق
اَب عطاؤں کی ہو برسات کرم کر مولا
تیری قُدرت کے مناظر ہیں زمانے بھر مِیں
میرے مولا تِری کیا بات کرم کر مولا
مَیں ہوں کمزور لڑوں کیسے زَمانے بَھر سے
میرے دُشمن کو بھی دے مات کرم کر مولا
ہے وَباؤں کے شکنجے مِیں پھنسی یہ دُنیا
تُو مِٹا دے سبھی صدمات کرم کر مولا
میری آنکھوں مِیں تِری یاد کا بس کاجؔل ہو
لمحہ لمحہ ہو تِرا ساتھ کرم کر مولا
(سمیرا سلیم کاجؔل)
———————————————–
بحرِ ہندی متقارب مسدس محذوف
پارس ہے تُو چُھو کر مُجھ کو سونا کر دے
کھنکے تیرے پیار کا کنگنا ایسا کر دے
تیرے بِن مَیں جی نہ پاؤں رہ نہ پاؤں
ساجَن میرے حال تُو ایسا میرا کر دے
خود کو بھی مَیں ڈُھونڈ نہ پاؤں اپنے اَندر
اَندر سے تُو مُجھ کو اِتنا گہرا کر دے
تیرے پیار کی چُنری میرے سینے پر ہو
میرے تَن مَن کی صُورت کو پیارا کر دے
بھینچ کے اپنی بانہوں مِیں تُو توڑ دے مُجھ کو
ایسے میرا آج تمام تُو قِصّہ کر دے
سانسیں ڈول کے کھول رہی ہیں راز ہمارے
ایسا کر تُو خود ہی ہر سُو چرچا کر دے
مور محبّت کا اَب کاجؔل رَقْص کرے گا
نخلستان تُو میرے دل کا صحرا کر دے
(سمیرا سلیم کاجؔل)
———————————————–
بحرِ ہندی متقارب مسدس محذوف
آس کا سُورج ڈُوب رہا ہے دھیرے دھیرے
دل کا بیڑا غرق ہُوا ہے دھیرے دھیرے
اپنے وَقْت کے فرعونوں کو وَقْت آنے پر
وَقْت کے پاؤں نے کُچلا ہے دھیرے دھیرے
صَبْر کا دامن تھام کے مَضبوطی سے رکھنا
دِل کا دَروازہ کُھلتا ہے دھیرے دھیرے
دِل تو صاف چَمکتا لے کر آتے ہیں سب
لیکن کالا یہ ہوتا ہے دھیرے دھیرے
جیسے پیار کے موسم دھرتی پر اُترے ہیں
ایسے دل مِیں تُو اُترا ہے دھیرے دھیرے
خُوشبو اُس کو اپنی بانہوں میں لیتی ہے
پُھول گُلابی جب کِھلتا ہے دھیرے دھیرے
چُپکے چُپکے دیکھی ہے تَصویر تُمہاری
کاجؔل آنکھوں مِیں پھیلا ہے دھیرے دھیرے
(سمیرا سلیم کاجؔل)
————————————————-
بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
عِشق کا تُم ثواب لگتے ہو
تُم تو اہلِ کتاب لگتے ہو
روز پڑھتی ہوں یاد کرتی ہوں
زندگی کا نِصاب لگتے ہو
کتنی مسحور کُن سی خوشبو ہے
کوئی کھِلتا گُلاب لگتے ہو
کھیلتی ہوں تُمہاری لہروں سے
مُجھ کو راوی، چناب لگتے ہو
جس کی تعبیر بس مَحبّت ہے
ایسا سُندر سا خواب لگتے ہو
تم مِیں چہرہ چھپائے رکھتی ہوں
مُجھ کو میرا نقاب لگتے ہو
بن کے کاجؔل رہو نا آنکھوں مِیں
ان میں تم لاجواب لگتے ہو
(سمیرا سلیم کاجؔل)
————————————————-
بحرِ ہندی متقارب مسدس محذوف
بیچ کے اپنی غیرت عزّت دار بنے ہیں
جو تھے اپنے وہ غیروں کے یار بنے ہیں
ڈھال بنے گا کون یہاں مَظلوموں کی اَب
سب ہی خنجر، نیزہ اور تلوار بنے ہیں
جن کی بُنیادیں بھی دِیمک چاٹ چُکی ہے
ایسے لوگ بھی رَستے کی دیوار بنے ہیں
اُونچا شَملَہ پَگڑی کا رکھنے والے بھی
شوق سے اَب زرداروں کی شلوار بنے ہیں
بُھوک نچاتی ہے ہر بَندے کو اُنگلی پر
پیٹ کی خاطر سارے کاروبار بنے ہیں
عاشق اور معشوق ہزاروں لاکھوں ہیں پر
سچّے عشق کے قصّے بس دو چار بنے ہیں
ہمدردی کا جن مِیں کاجؔل دَرْس نہیں ہے
ایسے مکتب دھرتی پر بے کار بنے ہیں
(سمیرا سلیم کاجؔل)
———————————————
بحرِ رمل مسدس محذوف
مَیں نے مٹّی کھود کر دَفنا دیا
مُضطرب زَخمی جگر دَفنا دیا
کون مُجھ سے حال پُوچھے گا یہاں
مَیں نے اپنا آپ گر دَفنا دیا
مُجھ کو پیارا تھا مِرا ماضی بَہت
حال کی خاطر مگر دَفنا دیا
جس پہ روتے تھے پرندے رات دن
ایک دن ایسا شجر دَفنا دیا
ہِجْر کی شب جو مِلا تھا غَم مُجھے
بس وُہی وَقتِ سَحر دَفنا دیا
خواب دیکھا تھا جو تُو نے ایک بار
مَیں نے وہ بھی چشمِ تَر دَفنا دیا
کِس قَدر ہے بے حسی کاجؔل یہاں
ظالموں نے گھر کا گھر دَفنا دیا
(سمیرا سلیم کاجؔل)
————————————–
بحرِ ہزج مسدس محذوف
مَیں کھڑکی کھول کر رکھتی نہیں ہوں
ہَوا کی مُنتظر بیٹھی نہیں ہوں
بہانے پاس آنے کے نہ ڈھونڈو
سمجھتی ہوں مَیں سب بچّی نہیں ہوں
ہزاروں درد مُجھ کو روندتے ہیں
مگر بے درد ہوں روئی نہیں ہوں
چراغوں سے مراسم ہیں پُرانے
مگر مَیں رات بھر جلتی نہیں ہوں
کہا کِس نے تُجھے اتنا بتا دے
کہ تیرے واسطے مَچلی نہیں ہوں
مِرے جذبات مِیں حدّت وُہی ہے
مَیں سنبھلی ہوں ابھی بدلی نہیں ہوں
عجب کاجؔل ہے میری زندگی بھی
سکون و چین سے رہتی نہیں بوں
(سمیرا سلیم کاجؔل)
———————————————-
بحرِ رمل مسدس محذوف
آپ کی آنکھوں میں میرا عکس ہے
دیکھتے ہیں سب یہ ایسا عکس ہے
ہیں پریشانی مِیں لہریں مُبتلا
پانیوں مِیں جب سے بکھرا عکس ہے
جس نے مُجھ کو ہے مکمّل کر دیا
میری آنکھوں مِیں وہ رہتا عکس ہے
سادگی کی راہ پر چلتے چلو
بس یہی اِک زندگی کا عکس ہے
آگ مِیں جلتا ہے جب آنچل کوئی
میری سانسوں کا بھی جلتا عکس ہے
جو مُجھے دُنیا سے کر دے بے خبر
مَیں نے بھی ایسا ہی سوچا عکس ہے
آئینے کے سامنے کاجؔل کھڑی
آئینے مِیں دِل رُبا سا عکس ہے
(سمیرا سلیم کاجؔل)
——————————————
بحرِ ہزج مسدس محذوف
وہ بِچھڑا ہے مُجھے اپنا بنا کر
نکل آگے گیا مُجھ کو گِرا کر
دُھواں تنہائی کا جَلوَت مِیں دیکھا
ہُوئی چُپ چاپ چند آنسو بہا کر
مَیں خود کو آسماں پر دیکھتی تھی
دِیا تھا پُھول جب اُس نے اُٹھا کر
مِری سانسوں پہ آرے چل رہے ہیں
بَدن سے رُوح کو اب تو جُدا کر
یہی احساس میری زندگی ہے
مِلا تھا ایک دن وہ مُسکرا کر
محبّت مِیں نہیں ہیں آزماتے
محبّت کب ہے ہوتی آزما کر
مِری تو عُمْر کاجؔل مختصر ہے
کرو تم مجھ سے باتیں روز آ کر
(سمیرا سلیم کاجؔل)
——————————————-
بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف
مَیں نے تُجھ کو جو خط لِکھّا اُس مِیں لِکھّا ایک پیام
اپنے دِل کی ہَر دَھڑکن سے مَیں نے لِکھّا تیرا نام
تُجھ سے بڑھ کر اور نہ کُوئی میرا سب کُچھ ہے بس تُو
تُجھ بِن مَیں ہوں گونگی، بہری تُجھ سے میرا روز کلام
دِل کا کمرہ تُجھ سے روشن کمرے مِیں ہے اِک گُلدان
شام سویرے تیری خوشبو میرے دِل مِیں ہے گلفام!
مَیں دِیوانی مَیں ہوں جوگن تو ہی میرا عشق حبیب
عِشق عِبادت مِیں کھو جاؤں مُجھ کو دُنیا سے کیا کام
کُندن سوچیں ہوتی ہیں جب سونا رُوپ نُکھرتا ہے
بِن اِحساس کے جیون مِیں تو ہوتا ہے سب کچھ ہی خام
تیری آنکھوں سے پی پی کر عِشق کی چادَر اوڑھی ہے
ڈول رہی ہیں سانسیں میری آگے بڑھ کر مُجھ کو تھام
دَرد کی میٹھی ہوک ہے دِل مِیں سچ کا کاجؔل آنکھوں مِیں
دَرد مِرے انمول بتا کر اَب نہ لگا تُو ان کے دام
(سمیرا سلیم کاجؔل)
—————————————-
بحرِ ہندی۔ متقارب اثرم مقبوض محذوف
دُھوپ کا چہرہ چھاؤں جیسا
شہر ہو جیسے گاؤں جیسا
رِشتے تو سب ہی اچھے ہیں
لیکن کون ہے ماؤں جیسا
منزل خود ہی مِل جائے گی
خود کو بنا لے پاؤں جیسا
گردش مِیں ہیں اس کے باسی
دیس ہے آج خلاؤں جیسا
چاند، ستارے اُڑتے دیکھے
ہے آکاش ہواؤں جیسا
کسرِ نَفسی چھوڑ چُکا ہے
ہے انسان خُداؤں جیسا
کاجؔل مَیں نے چُوم لیا ہے
اس کا نام دُعاؤں جیسا
(سمیرا سلیم کاجؔل)
—————————————
بحرِ متقارب مثمن سالم
مَیں اپنا نہیں اَب تِرا سوچتی ہوں
تُجھے ہر گھڑی باخُدا سوچتی ہوں
جہاں تیری چاہت پَھلے اور پُھولے
وُہی اَب تو آب و ہَوا سوچتی ہوں
کبھی آئینے مِیں اگر زُلف دیکھوں
تو ساون کی کالی گھٹا سوچتی ہوں
مَیں نَفرَت مِیں ڈُوبی ہوئی اس زمیں پر
محبّت بھرا سلسلہ سوچتی ہوں
مری ہر ادا کو اگر ہو سمجھتے
مُجھے تم بتاؤ مَیں کیا سوچتی ہوں
اگر کوئی پانی پیے بھر کے پیالہ
تڑپ کر مَیں کَرب و بَلا سوچتی ہوں
فنِ شاعری پر نہیں دسترس پر
مَیں کاجؔل ذرا سا جُدا سوچتی ہوں
(سمیرا سلیم کاجؔل)
——————————————–
بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مُجھے یقین ہے اُس نے بُھلا دِیا ہو گا
کِسی مَکان کی تنہائی مِیں پڑا ہو گا
لگے گی پیاس اُسے جب تو یاد آؤں گی
وُہ اپنی پیاس بُجھانےبھی خُود اُٹھا ہو گا
جہاں وُہ بولتا تھا شوخ پَن دِکھاتے ہُوئے
وہاں بھی سَر کو جُھکائے وُہ چُپ رہا ہو گا
فِراق و ہِجْر کی آتش مِیں جَلتی رِہتی ہوں
خُدایا وُہ بھی کِسی رات تو جَلا ہو گا
کِسی کے سَر سے نہ چادَر اُتار اے ظالم!
بَھلا کرو گے تو آگے بھی پھر بَھلا ہو گا
قطار مِیں ہے کھڑی اِک غریب بُڑھیا بھی
امیر دے گا اسے کچھ اگر بچا ہو گا
فلک بھی سُرخ مُجھے لگ رہا ہے اے کاجؔل!
زمیں پہ قتل کِسی نیک کا ہُوا ہو گا
(سمیرا سلیم کاجؔل)
——————————————–
بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
عَرُوض و شِعر مِیں اُلجِھی ہُوئی کہانی ہوں
مَیں لاڈلی ہُوں محبّت کی ایک رانی ہوں
نجاستوں سے بَچا کر وُجُود رَکھا ہے
کرے گا مُجھ سے وُضُو عِشق پاک پانی ہوں
مُجھے سنبھال کے رَکھنا کِسی تِجوری مِیں
تُمھارے پیار کی مَیں آخری نِشانی ہوں
سَمندروں کی ہَواؤں سے رَبط ہیں گہرے
بَپھرتی موج ہُوں آفت بھی ناگہانی ہوں
زمین پر مَیں ہمیشہ تو رہ نہیں سکتی
مَیں خاک زادی حقیقت مِیں آسمانی ہوں
مُجھے نہ سر پہ تُو اپنے سوار کر دُنیا
یہ چھوڑ لاڈ مُجھے تُو اُتار فانی ہوں
عقیق یمنی انگوٹھی مِیں پہن رکھا ہے
گُلاب اوڑھے ہیں کاجؔل مگر مَیں دھانی ہوں
(سمیرا سلیم کاجؔل)
——————————————–
_____ نفرتیں ___ (آزاد نظم)
نَفرتوں کے لہجوں میں
زندگی کہاں ہو گی
نفرتیں تو خونی ہیں
رحْم کب یہ کھاتی ہیں
خون کی یہ پیاسی ہیں اور یہ جنونی ہیں
نفرتیں تو سینوں میں
آگ ہی لگاتی ہیں، پھر لہو بہاتی ہیں
آگ کو بُجھاتی ہیں
نفرتیں تو ظالم ہیں ظلم کر کے ہنستی ہیں
دیکھ کر یہ روتوں کو
خوب مسکراتی ہیں
جنگ کا طبل پھر سے سرحدوں پہ بجتا ہے
نفرتوں کے سینوں میں پھر حسد بھڑکتا ہے
پھر لہو بکھرتا ہے
گھر کے گھر اُجڑتے ہیں
چادریں اُترتی ہیں
کچھ یتیم ہوتے ہیں
کوکھ بانجھ ہوتی ہے
بے بسی اُترتی ہے
زندگی اُجڑتی ہے
گولیاں بَرستی ہیں
اس سے بھی کہیں زیادہ
حال پھر بگڑتا ہے
کون سب یہ کرتا ہے
نفرتیں تو کرتی ہیں!
ہاتھ ٹوٹ جاتے ہیں
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
آنسوؤں کے دریا میں
سُکھ تو ڈوب جاتے ہیں
دُکھ مگر ستاتے ہیں
نفرتیں مٹا دو سب
نفرتیں نہیں اچھی
نفرتیں تو قاتل ہیں
پیار کی محبت کی
اور سکون و راحت کی
نفرتیں مٹا دو سب!
نفرتیں بھُلا دو سب!
(سمیرا سلیم کاجؔل)
——————————————–
بحرِ ہزج مربع سالم
فَلک پر تھا ہمارا دل
جبھی ٹُوٹا سِتارا دل
کہاں رَکھ کر ہو بُھولے تُم
مُجھے لا دو خُدارا دل
بَہت اَنمول دولت ہے
نہیں مِلتا اُدھارا دل
چھڑک کے رَنگ ہر دُکھ کا
مِرا تُم نے سَنوارا دل
طرفدارِ مُحبّت ہو
جبھی تُم پر ہے وارا دل
بھرا ہے زہر اَب اِس مِیں
نہ میٹھا ہے نہ کھارا دل
جہاں مَیں جیت جاتی تھی
وہیں کاجؔل ہے ہارا دل
(سمیرا سلیم کاجؔل)
——————————————–
بحرِ متدارک مثمن سالم
______ یا خُدا ______
زِندگی بَن گئی ہے سَزا یا خُدا
سُن ہماری تُو آہ و بُکا یا خُدا
ہَر خَطا سے بچیں نیک بَن کے رہیں
اَب نہ ہو ہم سے کوئی خَطا یا خُدا
ہے تُجھے سب خبر جائیں اَب ہم کدھر
ختم ہو اب یہ موذی وَبا یا خُدا
دل پشیمان ہیں ہاں پریشان ہیں
اَب تو آنے لگی ہے حیا یا خُدا
ہرطرف خوف کی گھنٹیاں بج اُٹھیں
المدد سَب کے مشکلکشا یا خُدا
آس تجھ سے لگائے ہوئے ہیں سبھی
موت سے تُو زمیں کو بچا یا خُدا
کچھ بھروسہ نہیں کب تَلک سانس ہے
نیک اِنسان ہم کو بَنا یا خُدا
سوچ وِیران ہے فِکْر ہے غمزدہ
وَقت ہے کس طرف چل پَڑا یا خُدا
کھول دَر تُو کرم کے ہمارے لیے
دے رہے ہیں صَدا پہ صَدا یا خُدا
حالتِ غم مِیں ہیں موت کا راج ہے
ایک تُو ہے فقط آسرا یا خُدا
ہاتھ پھیلا کے کاجؔل نے مانگا ہے جو
آج کر دے اِسے وُہ عَطا یاخُدا
(سمیرا سلیم کاجؔل)
















Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)