دُکھتے ہاتھوں سے تِرے سامنے چَکّی پِیسُوں
دے مُشقّت سے بھَری آج سَزا قید رہوں
وَصْل کی سیج پہ دیدار کروں مَیں تیرا
تیری آنکھوں میں ہمیشہ مَیں پِیا قید رہوں
جس حویلی مِیں مَحبّت کا کرے قتل کُوئی
ایسے ماحول مِیں کُیونکر مَیں بَھلا قید رہوں
اب تو آزاد فضاؤں مِیں لہو کی بُو ہے
اِس لیے چَرچ مِیں مانگی ہے دُعا قید رہوں
وحشتِ قَلب مُجھے اور کہیں لے چل تُو
بِھیڑ سے ڈرنے لگی ہوں، ہے وَبا، قید رہوں
آزمائش ہے کڑی بہنے لگا ہے کاجؔل
فیصلہ مَیں نے بھی آخر یہ کِیا قید رہوں
سمیرا سلیم کاجؔل
اسلام آباد