غَزل تو کہہ دِی غَزل کو سمجھ نہ پائے کبھی Ghazal to kaha di Ghazal ko samaj na paye koi.

0

 

غَزل تو کہہ دِی غَزل کو سمجھ نہ پائے کبھی Ghazal to kaha di Ghazal ko samaj na paye koi

مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن

 

غَزل تو کہہ دِی غَزل کو سمجھ نہ پائے کبھی 

سلیقہ اِس کو سمجھنے کا ہم کو آئے کبھی

 

اِسی بہانے ہماری بھی شام مہکے گی 

ہمارے ساتھ پئیں آپ آ کے چائے کبھی

 

کہے گا جان تو رکھ دیں گے جان قَدموں مِیں 

یقین اُس کو نہیں ہے تو آزمائے کبھی

 

غریب لوگ تَرستے ہیں ایک روٹی کو

امیرِ شہر کو جا کر کوئی بتائے کبھی

 

وہ بُھول جائے گا ہر ذائقہ یقین کریں!

ہمارے ہاتھ کا کھانا بھی آ کے کھائے کبھی

 

سبھی کے راستے ہَموار کر رہا ہے مگر

ہماری راہ سے پتھّر بھی تو ہٹائے کبھی

 

چُھپا رہا ہے وہ باتوں مِیں بات کاجؔل کی

اُسے کہا تھا جو ہَم نے زباں پہ لائے کبھی

 

سُمیرا سلیم کاجؔل

اسلام آباد

 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)