بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
حقیقتوں مِیں فَسانے تلاش کرتا ہے
وُہ رُوٹھنے کے بہانے تلاش کرتا ہے
جو اُس کا چہرہ پڑھیں اور تَجْزِیَہ بھی
کریں
وہ لوگ ایسے سِیانے تلاش کرتا ہے
جَدید دور مِیں ہے دوستی بھی ڈیجیٹل!
دُکھوں کا بھار تو شانے تلاش کرتا ہے
مِرے وُجُود کی شاخوں کو بے ثَمر کر کے
قرار میرے سرھانے تلاش کرتا ہے
یہ کیسا دور ہے بِہتی ہے اُلٹی گنگا اَب
یہاں تو چور بھی تھانے تلاش کرتا ہے
مَلنگ مَن مِیں ہے ڈیرا لگائے بیٹھا ہُوا
یہ مُجھ مِیں اپنے زمانے تلاش کرتا ہے
مُکیش دَرد کو آواز دے گیا کاجؔل
!
فراق اُس کے ہی گانے تلاش کرتا ہے
سُمیرا سلیم کاجؔل
اسلام آباد