بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
تُم مَحَبّت خرِیدنا نہ کبھی
یُوں ہَزِیمَت خرِیدنا نہ کبھی
اَپنی عِزّت جو بیچنے کا کہے
اُس کی عِزّت خرِیدنا نہ کبھی
جِس پہ ہو بے حِسی کا چھڑکاؤ
ایسی شُہرت خرِیدنا نہ کبھی
حُسن پِھیکا کہیں نہ پڑ جائے
زیب و زِینت خرِیدنا نہ کبھی
جِس مِیں اِبلیس بھی شریک رہے
ایسی خَلوت خرِیدنا نہ کبھی
جِس کو وُہ چاہتا ہے دیتا ہے
شان و شوکت خرِیدنا نہ کبھی
اپنے باغات بیچ کر کاجؔل
!
دَشت و پَربت خرِیدنا نہ کبھی
سُمیرا سلیم کاجؔل
اسلام آباد