بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مَچایا شور بَرستی ہُوئی گَھٹاؤں نے
کِواڑ بَند کِیے زور سے ہَواؤں نے
جَڑوں سمیٹ اُکھاڑا گیا دَرَختوں کو
زمین آج شکنجے مِیں لی بلاؤں نے
رواج شہر کے جب سے وہاں پہ جا کے بَسے
پُرانی رَسمیں بُھلا دی ہیں میرے گاؤں نے
تھپیڑے دُھول کے اِن کو شِکَسْتَہ کر نہ
سکے
دُرست راستہ جَب بھی چُنا ہے پاؤں نے
لَہو کی جب بِھی ضُرورت پڑی ہے دَھرتی کو
کٹائے لَختِ جگر با وَقار ماؤں نے
وِصال ِیار کی لَذّت خُدارا مَت پُوچھو!
قرارلوٹ لِیا دِل نشیں اَداؤں نے
بُری نَظر سے خُدا ہی بچائے گا کاجؔل
وُجود میرا ہے ڈھانپا ہُوا دُعاؤں نے
سمیرا سلیم کاجؔل
اسلام آباد